بِسْمِ اللّٰہَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
ﷲ أکبر ﷲ أکبر، لا إله إلا ﷲ وﷲ أکبر، ﷲ أکبر ولله الحمد
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بﷲ من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده ﷲ فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا ﷲ وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
اما بعد: فقد قال ﷲ تبارک وتعالی:
ــــ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ [سورة الأنعام]
ترجمہ: کہہ دیجیے: بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت ﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔ [تفسیرکابلی]
ــ وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ... وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۱۹۶﴾ [سُورَةُ البَقَرَة]
ترجمه: > اور ﷲ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو... اور ﷲ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک ﷲ سخت سزا دینے والا ہے۔[تفسیر کابلی]
ــ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی ﷲ تعالی عنه قَالَ : ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ -صلى ﷲ عليه وسلم- بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وسَمّى وَكَبّرُ قال: رَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا وَيَقُولُ بسم ﷲ وﷲ اکبر، متفق عليه.
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سینگوں والے دنبوں(جن کے سینگ لمبےتھے یا جن کے سینگ ٹوٹے نہ تھے) اور چتکبرے (سیاہ وسفید رنگ والے دنبوں) کی قربانی کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ، اللہ اکبر کہتے ہوئے اپنے ہاتھ مبارک سے ان کو ذبح فرمایا، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پہلو یا گردن پر پاؤں رکھا ہوا تھا اور آپ بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔[بخاري و مسلم]
خلاصہ یہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے دو چتکبرے یعنی سیاہ وسفید جانوروں کی قربانی کی۔ انہیں اپنے ہاتھ مبارک سے ذبح کیا، بسم اللہ اور اللہ اکبر پڑھا اور اپنا پاؤں ان کے پہلو پر رکھا ہوا تھا۔
ــ عَنْ عَائِشَةَ رضی ﷲ تعالی عنها أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى ﷲ عليه وسلم- قَالَ « مَا عَمِلَ آدَمِىٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ إِنَّهَا لَتَأْتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلاَفِهَا وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا» [مشکوة المصابیح]
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: قربانی کے دن ابن آدم کا کوئی عمل ﷲ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں کہ وہ خون بہائے (قربانی کرے)۔ بے شک وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا۔ اور یقیناً قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ﷲ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے، لہٰذا خوش دلی سے قربانی دو۔
تمام مؤمن، مجاہد، افغان بھائیوں اور مسلمانوں کے نام
السلام علیکم ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ
سب سے پہلے آپ سب کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ آپ کی عبادات، قربانیاں، حج، صدقات اور دیگر نیک اعمال قبول فرمائے۔
ہم یہ دن ایسے وقت میں منا رہے ہیں جب ﷲ تعالیٰ کے فضل، امارت اسلامیہ کی کوششوں، شہداء و معذورین کی قربانیوں اور امت مسلمہ کی دعاؤں کے نتیجے میں ہمیں شرعی نظام اور مکمل امن حاصل ہے، اس لیے ہم سب پر لازم ہے کہ ﷲ کا شکر ادا کریں۔
محترم بھائیو!
یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، شرعی نظام کی ترقی اور کامیابی کے لیے مزید کوشش کریں، اپنے اتحاد و اتفاق کو مزید مضبوط بنائیں، ہر ذمہ دار شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھے، غفلت نہ کرے، اپنا کام بروقت انجام دے، ایک دوسرے سے تعاون کرے، بلاوجہ مداخلت نہ کرے، اور پہلے اپنے اوپر پھر دوسروں پر شریعت کو نافذ کرے۔
علما ہمارے معاشرے کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں، ﷲ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکۡتُمُوۡنَہٗ ۫ فَنَبَذُوۡہُ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ وَ اشۡتَرَوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَبِئۡسَ مَا یَشۡتَرُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾ [سورة ال عمران]
ترجمہ:جب ﷲ نے ان سے عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں، لیکن انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے معمولی قیمت لی، تو بہت ہی برا ہے جو وہ خریدتے ہیں۔
تفسیر:اہل کتاب کے علما سے ﷲ نے عہد لیا تھا کہ وہ کتاب ﷲ میں موجود احکام و بشارتوں کو لوگوں کو واضح کریں گے، نہ چھپائیں گے، نہ معنی بدلیں گے، مگر انہوں نے چند دنیوی مفادات کے عوض وہ تمام احکام چھپا دیے، الفاظ و معانی میں تحریف کی۔یہ آیت اسلام کے علما کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کی محبت میں نہ پڑیں، ہر وقت اور ہر حال میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں، اور کبھی بھی ﷲ کے احکام لوگوں سے نہ چھپائیں، کیونکہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے علم چھپایا، ﷲ اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائے گا۔ [تفسیر کابلی]
جیسے علما ذمہ دار ہیں ویسے ہی عوامی مشران اور بااثر شخصیات پر فرض ہے کہ اﷲ کے احکام قائم کریں، حقوق ان کے حقداروں کو ادا کریں، ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھیں۔ اگر وہ دین سے منحرف ہو جائیں تو پورا شرعی نظام اور امن تباہ ہو جائے گا۔
قبیلہ احمس کی ایک خاتون زینب نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے پوچھا:
قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلٰى هَذَا الأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللّٰهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ قَالَتْ وَمَا الأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُؤُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَى قَالَ فَهُمْ أُولٰئِكَ عَلَى النَّاسِ. رواه البخاري
خاتون نے کہا: "ہم کب تک اس نیک دین پر قائم رہیں گے جو ﷲ نے ہمیں جاہلیت کے بعد عطا فرمایا؟"انہوں نے فرمایا: "اس پر تمہارا قائم رہنا اس وقت تک ہوگا جب تک تمہارے حکمران اس دین پرقائم رہیں۔"خاتون نے پوچھا: "حکمران کون ہیں؟"انہوں نے جواب دیا: "کیا تمہارے قبیلے کے سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جن کا حکم لوگ مانتےہیں؟"خاتون نے کہا: "جی ہاں ہیں۔"فرمایا: "بس وہی لوگوں کے امام اور حکمران ہیں۔ اگر وہ دین پر ہوں گے تو لوگ بھی ہوں گے، اور اگر وہ دین چھوڑ دیں گے تو لوگ بھی چھوڑ دیں گے، اور ساری خرابی کا ذمہ ان پر ہوگا۔"
لہٰذا ہمارے علما اور معززین کو چاہیے کہ وہ اپنے شرعی نظام، عوام اور وطن کے مفاد میں مضبوط موقف اختیار کریں۔ اپنے تجزیوں، تحقیقات، خطابات، تحریروں اور سفارشات کے ذریعے عوام کی اچھی ذہن سازی کریں، معاشرے میں اتحاد و اتفاق کے قیام اور فتنوں و فساد کے روک تھام کے لیے سنجیدہ جدوجہد کریں، کیونکہ لوگ ان کی بات سنتے ہیں اور ان کے نظریات معاشرے کو متاثر کرتے ہیں، اور یہ دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔
اسلامی امارت کی عدالتوں کے تمام قاضیوں اور ذمہ داروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بھاری ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو ان کے شرعی حقوق دلوانے اور تنازعات کے حل میں پہلے سے زیادہ سنجیدہ رہیں۔ فیصلے میں طاقتور اور کمزور کے درمیان کوئی فرق نہ کریں، ہر ایک کے ساتھ عدل اور مساوی سلوک کریں، مجرم کی شخصیت کو نہیں بلکہ جرم کو دیکھیں، مظلوم کی حمایت کریں، ظالم کو روکیں اور لوگوں کے مقدمات کو بغیر کسی تاخیر کے حل کریں۔
ہمارے مجاہدین کی قربانیوں اور جہاد کا سب سے بڑا مقصد شرعی نظام کا نفاذ اور معاشرے میں اسلامی احکام کا اجرا تھا، یہ عظیم مقصد عدالتوں کی کارکردگی اور بہتر خدمت سے وابستہ ہے۔
ارشاد، حج و اوقاف، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے وزارات کو چاہیے کہ وہ علمائے کرام اور معززین کے ساتھ مل کر عوام کو نیکی کی دعوت دینے، اچھے اعمال کے فروغ اور اپنے دائرہ کار میں شرعی نظام کی طرف لوگوں کو بلانے کے کام کو تیز کریں اور اپنی پوری توانائی اس میں صرف کریں۔
ہمارے تاجر اور صنعتکار بھائیوں کو چاہیے کہ وہ وطن کی خوشحالی کے لیے مزید کوشش کریں تاکہ ہمارا ملک خودکفیل بنے اور دوسروں کا محتاج نہ رہے۔ اگر ہم آزادی اور خودمختاری کی حفاظت اور ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ چاہتے ہیں تو آج کے دور میں یہ سب وسائل اور معیشت سے وابستہ ہے، اور معیشت کی مضبوطی تجارت اور صنعت کے فروغ پر منحصر ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر اپنے گھر (وطن) کو تعمیر کرنے اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کردار ادا کریں۔
اسلامی امارت سے وابستہ اقتصادی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاجروں اور صنعتکاروں کی زیادہ سے زیادہ حمایت کریں، ان کے لیے بہتر مواقع پیدا کریں اور ان کے ترقی میں مدد کریں۔
مہاجرین کے متعلق وزارت اور دیگر متعلقہ ادارے نیز تمام صوبائی گورنر حضرات کو چاہیے کہ وہ واپس آنے والے اپنے ہم وطن بھائیوں کی خدمت کریں، انہیں آباد کریں اور نقل و حمل میں حتی الوسع ان سے تعاون کریں۔
اسلامی امارت کے تمام سیکورٹی اور سول ملازمین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں پر پوری توجہ دیں، دوسروں کے کاموں میں مداخلت نہ کریں کیونکہ یہ بے ترتیبی، بے اعتمادی اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔ عوام کی خدمت عبادت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عوام کی خدمت کی ذمہ داری سونپی ہے، یہ ایک الٰہی امتحان ہے۔ اس میں کسی قسم کی غفلت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ غفلت کوئی عذر نہیں۔ چاق و چوبند رہیں، عوام کے کاموں کو آسان بنائیں، مشکلات پیدا نہ کریں، آسانیاں پیدا کریں تاکہ اﷲ تعالیٰ آپ کے لیے بھی آسانی فرمائے۔ عوام کا وقت ضائع نہ کریں، ان کے لیے دروازے بند نہ کریں، وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کریں، ان کی شکایات سنیں تاکہ نہ کوئی کسی کا حق کھائے، نہ کسی کو نقصان پہنچے اور ہر ایک کو اس کا حق ملے۔
نظام کو عوام کے سرپرست اور کفیل کی حیثیت حاصل ہے، اسے ایک باپ کی طرح عوام کی دیکھ بھال کرنی چاہیے، ان کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے اور امانتوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔
روایت میں آتا ہے:
عن أبي الشماخ الأزدي، عن ابن عم له من أصحاب النبي صلی ﷲ عليه وسلم، أتی معاوية فدخل علیه، فقال: سمعت رسول ﷲ صلی ﷲ عليه وسلم يقول: " مَنْ وَلِيَ أَمْرًا مِنْ أَمْرِ النَّاسِ ثُمَّ أَغْلَقَ بَابَهُ دُونَ الْمِسْكِينِ وَالْمَظْلُومِ أَوْ ذِي الْحَاجَةِ، أَغْلَقَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى دُونَهُ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ عِنْدَ حَاجَتِهِ وَفَقْرِهِ أَفْقَرَ مَا يَكُونُ إِلَيْهَا" [ أخرجه أحمد].
ترجمه: ابوشماخ الازدی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے چچازاد بھائی سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں روایت کی ہے کہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ
"جو شخص مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنے، پھر مسکین، مظلوم یا حاجت مند کے لیے اپنا دروازہ بند کرے، تو ﷲ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت کے دروازے اس وقت بند کر دے گا جب اسے ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔"
امیر کے احکام کی اطاعت کریں، کیونکہ اطاعت واجب ہے، سب کو اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں:
حضرت عمر رضی ﷲ تعالی عنه کا فرمان ہے : إنه لا إسلام إلا بجماعة ، ولا جماعة إلا بإمارة ، ولا إمارة إلا بطاعة. [رواه عنه الدارمي.]
ترجمہ: نہ اسلام بغیر جماعت کے ممکن ہے، نہ جماعت بغیر امارت کے، اور نہ امارت بغیر اطاعت کے۔"
مدارس کے طلباء، یونیورسٹیوں کے طلباء اور اسکولوں کے طالبعلموں کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیم اور ذمہ داریوں پر توجہ دیں، اساتذہ، کتابوں اور علم کا احترام کریں، جو مواقع انہیں میسر ہیں ان کی قدر کریں اور ان سے بہترین استفادہ کریں۔
دیکھو! وقت کو فضول کاموں میں ضائع نہ کرو، ہر وہ چیز جو وقت کے ضیاع کا سبب بنے اس سے پرہیز کرو اور اپنے اصل مقصد کی طرف متوجہ رہو۔
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾[سورة المؤمنون]
"اور وہ لوگ بہرہ مند ہوگئے جو لغو (فضول باتوں) سے منہ موڑتے ہیں (یعنی فضول اور بے کار مشاغل میں وقت ضائع نہیں کرتے۔"
نبي کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: من حسن اسلام المرء ترکه ما لا یعنیه. [رواه الترمذي]
ترجمه: "اچھے اسلام کی نشانی یہ ہے کہ انسان ان کاموں کو چھوڑ دے جو اس کے فائدے میں نہیں۔"
آئندہ نسلوں کو آپ کی علمی قابلیت اور تجربے کی ضرورت ہوگی، اس لیے خود کو قابل اور صاحب علم بنائیں، محنت کریں تاکہ آپ سے اچھے علمی و فکری افراد تیار ہوں جو اسلام، اسلامی نظام اور عوام کی بہتر خدمت کر سکیں۔
اس سال بھی تقریباً تیس ہزار افغان حجاج کرام حج کی عظیم عبادت کے لیے بیت ﷲ شریف جا چکے ہیں، ہم ان سے اور دنیا بھر سے آنے والے تمام حاجیوں سے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے اور پورے امت مسلمہ کے لیے دعا کریں۔
فلسطین کے غزہ اور دیگر علاقوں میں خواتین، بچوں اور مظلوم مسلمانوں پر صیہونی حملے اور مظالم جاری ہیں، یہ بہت بڑا انسانی المیہ اور ظلم ہے۔ اسلامی امارت ایک بار پھر فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت کا اعلان کرتی ہے، ان پر ہونے والے تمام مظالم کی سخت مذمت کرتی ہے اور فوری روک تھام کا مطالبہ کرتی ہے۔
آخر میں، ایک بار پھر تمام مسلمانوں کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ آپ کی عبادات، قربانیاں اور حج کو قبول فرمائے اور آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔والسلام
امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی هبة ﷲ اخندزاده
۷/۱۲/۱۴۴۶ هـ ق
۱۴/۳/۱۴۰۴هـ ش ــ 2025/6/4م